بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
Jump to navigation
Jump to search
بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
گویا ساون کی ہیں جھڑی آنکھیں
نرگس آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے
یاد کر وہ بڑی بڑی آنکھیں
شرر افشانیٔ سرشک سے رات
تھیں مری جیسے پھلجھڑی آنکھیں
جوں قلمرو رہی ہیں اشک سیاہ
دیکھ اس مسی کی دھڑی آنکھیں
مصحفیؔ دیکھ بد بلا ہے وہ شوخ
نہ ملا اس سے ہر گھڑی آنکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.
Public domainPublic domainfalsefalse