بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
گویا ساون کی ہیں جھڑی آنکھیں

نرگس آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے
یاد کر وہ بڑی بڑی آنکھیں

شرر افشانیٔ سرشک سے رات
تھیں مری جیسے پھلجھڑی آنکھیں

جوں قلمرو رہی ہیں اشک سیاہ
دیکھ اس مسی کی دھڑی آنکھیں

مصحفیؔ دیکھ بد بلا ہے وہ شوخ
نہ ملا اس سے ہر گھڑی آنکھیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse