میاں صبر آزمائی ہو چکی بس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
by غلام علی ہمدانی مصحفی

میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
ملو اب بے وفائی ہو چکی بس

بہار خود نمائی ہو چکی بس
جہاں چھوٹی ہوائی ہو چکی بس

یہی ہے اس کی گر بیگانہ وضعی
تو ہم سے آشنائی ہو چکی بس

بھروسا کیا ہمارا اشک کی بوند
جہاں مژگاں پر آئی ہو چکی بس

پھنسے صیاد کے پھندے میں بے طرح
ہماری اب رہائی ہو چکی بس

نہ مل حجام رخسار اس کے ہر دم
منڈایا خط صفائی ہو چکی بس

ادا میں واں ادا نکلیں ہیں لاکھوں
میں سمجھا بے ادائی ہو چکی بس

دلا مت دیدۂ خوں بار کو پونچھ
ہر اک انگلی حنائی ہو چکی بس

یہی درباں پہ ہے قدغن تو یارو
صبا کی واں رسائی ہو چکی بس

غزل اے مصحفیؔ یہ میرؔ کی ہے
تمہاری میرزائی ہو چکی بس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse