گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں
اور جو ہم سایے ہیں آواز میں مر جاتے ہیں

کبک و طاؤس کو چلتا ہے تو ٹھہرا کے تو ہم
تیری رفتار کے انداز میں مر جاتے ہیں

مژدہ اے یاس کہ یاں کنج قفس کے قیدی
یک بیک موسم پرواز میں مر جاتے ہیں

ہیں ترے رمز تبسم کے ادا فہم جو شخص
جنبش لعل فسوں ساز میں مر جاتے ہیں

لب ہلانے نہیں پاتا وہ کہ ہم نادیدہ
بس وہیں بات کے آغاز میں مر جاتے ہیں

توسن ناز کو پھینکے ہے وہ جس دم سرپٹ
لوگ کیا کیا نہ تگ و تاز میں مر جاتے ہیں

مصحفیؔ دشت بلا کا سفر آسان ہے کیا
سیکڑوں بصرہ و شیراز میں مر جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse