دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
پر دل زار کا انداز فغاں اور ہی ہے

قد نوخیز نہیں آفت جاں اور ہی ہے
جس پہ دل اپنا گیا ہے وہ جواں اور ہی ہے

ہم جہاں رہتے ہیں یارو وہ جہاں اور ہی ہے
وہ جگہ اور ہی ہے اور وہ مکاں اور ہی ہے

شفقی رنگ پہ مت بھولیو اپنے اے ابر
چشم خشک اور مژۂ اشک فشاں اور ہی ہے

بدن آغشتہ بخوں ہونے پہ موقوف نہیں
زخمیٔ ناوک مژگاں کا نشاں اور ہی ہے

گو کہ اوروں کی ہوئیں سرمے سے آنکھیں روشن
سرمۂ بینش صاحب نظراں اور ہی ہے

گرچہ رکھتے ہیں نزاکت یہ سبھی مو کمراں
وہ نزاکت ہے جدی اور وہ میاں اور ہی ہے

مصحفیؔ گرچہ یہ سب کہتے ہیں ہم سے بہتر
اپنی پر ریختہ گوئی کی زباں اور ہی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.