نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
آزاد ہیں پہ ہیں ترے زندانیوں میں ہم

جن کا نظیر دست قضا سے نہ بن سکا
انصاف ہو تو ہیں انہی لا ثانیوں میں ہم

دریا کی لہروں سے یہ عیاں ہے کہ جوں حباب
رکھتے ہیں دل کو جمع پریشانیوں میں ہم

رشکوک میرے اشک کے لے اس نے یوں کہا
ان موتیوں کو ڈالیں گے چودانیوں میں ہم

اب طائران دشت کے ہیں ہم نشید درد
کرتے تھے زمزمے کبھی بستانیوں میں ہم

اے تیغ ناز تو نے یہ کیسا ستم کیا
بے ذبح رہ گئے ترے قربانیوں میں ہم

جس جا پڑے ہیں کشتے ترے ان کے جو نسیم
بوسے ہی دیتے پھرتے ہیں پیشانیوں میں ہم

سو عیدیں آئیں اور ہوا ہم کو حکم قتل
کیا ناقبول ہیں ترے زندانیوں میں ہم

اے شہسوار حسن عناں لے کہ پس گئے
تیرے سمند ناز کی جولانیوں میں ہم

مدرک ہیں جز و کل کے پہ رہتے ہیں رات دن
اس کار گاہ صنع کی حیرانیوں میں ہم

کشتی شکست خوردۂ دریائے عشق ہیں
جاتے ہیں ترتے ڈوبتے طوفانیوں میں ہم

محتاج مرگ کاہے کو پھر ہوویں مصحفیؔ
جیتے ہی جی جو بیٹھے ہوں روحانیوں میں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse