خواریاں بدنامیاں رسوائیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
عشق نے شکلیں یہ سب دکھلائیاں

وہ ہی کیں باتیں جو تجھ کو بھائیاں
بل بے اے ظالم تری خودرائیاں

مر گئے لاکھوں ہی اور پروانہ کی
کیا کہوں میں اس کی بے پروائیاں

ایک صورت کے لیے اس عشق میں
سیکڑوں صورت کی ہیں رسوائیاں

شوق میں آغوش تیغ ناز کے
زخم دل لیتے ہیں سب انگڑائیاں

ہم سے پوچھے کوئی عزلت کا مزہ
گوشۂ صحرا ہے اور تنہائیاں

دل مشبک صورت بادام ہے
برچھیاں پلکوں کی کس کی کھائیاں

خانۂ دل پر ہمارے یا نصیب
بادلوں نے بجلیاں برسائیاں

مصحفیؔ بھی ہے پھنکیتوں میں میاں
یاد ہیں اس کو بھی کتنی گھائیاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.