ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
پر یار نہ سمجھیں تو یہ بات نرالی ہے

آغوش میں ہے وہ اور پہلو مرا خالی ہے
معشوق مرا گویا تصویر خیالی ہے

کیا ڈر ہے اگر اس نے در سے مجھے اٹھوایا
کہتے ہیں تغیری میں عاشق کی بحالی ہے

بالیں پہ جب آیا ہے بیمار کی تو اپنے
تب روح کے قابض نے جان اس کی نکالی ہے

میں حال بیاں اپنا کرتا ہوں غزل کہہ کے
اس واسطے اب میرا جو شعر ہے حالی ہے

مہندی کے لگانے میں پھرتی یہ نہیں دیکھی
ظالم نے ہتھیلی پر سرسوں سی جما لی ہے

ہر چند کہ پروانہ جل جانے میں ہے آندھی
پر شمع بھی آتش میں جی جھونکنے والی ہے

مانی نے شبیہ اس کی کیا سوچ کے کھینچی تھی
موئے کمر اس کے کی تصویر خیالی ہے

ظاہر ہے کہ جاگے ہو تم رات کہیں رہ کر
آنکھوں میں نشے کی تو کچھ تھوڑی سی لالی ہے

مقدور مگر کب تھا قربان ہیں ہم اس کے
دامن کی ترے جس نے یہ جھونک سنبھالی ہے

اے مصحفیؔ ہے تیرا اتنا جو سخن چسپاں
کیا تو نے جواں درزن گھر میں کوئی ڈالی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse