کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
اپنے لباس سرخ کی مجھ کو بھڑک دکھا گئے

بیٹھے ادا سے ایک پل ناز سے اٹھے پھر سنبھل
پہلو چرا گئے نکل جی ہی مرا جلا گئے

رکھتے ہی در سے پا بروں لے گئے صبر اور سکوں
فتنۂ خفتہ تھا جنوں پھر وہ اسے جگا گئے

مجھ کو تو کام کچھ نہ تھا گو کہ وہ تھے پری لقا
بار خدا یہ کیا ہوا کیوں وہ مجھے ستا گئے

ہے یہ عجب طرح کی بات کیونکہ نہ ملیے اپنے ہاتھ
دل پہ ہمارے وہ تو رات چوکی سی اک بٹھا گئے

سحر کیا کہ ٹوٹکا آئی یہ وائے کیا بلا
ہائے یہ جی کدھر چلا زور ادا دکھا گئے

گرچہ نہ تھے کچھ اتنے گرم لیک دکھا ادائے شرم
دل کو لگے جو نرم نرم سخت قلق لگا گئے

آویں گے پھر بھی مصحفیؔ دیکھنے میرے گھر کبھی
اٹکا ہے اب تو ان سے جی گرچہ وہ منہ چھپا گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse