کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے
پرچتا نہیں دل جہاں بیٹھیے

میں دیکھا تمہیں خوب پردے میں اب
ذرا اور ہو کر نہاں بیٹھیے

کھڑے دیکھتے کیا ہو پھر آئیے
کرم کیجیے مہرباں بیٹھیے

ابھی سے کہاں اٹھ چلے کوئی دم
غنیمت ہے صحبت میاں بیٹھیے

ترے ہاتھوں سے اے جفائے فلک
بتا تو ہی چھپ کر کہاں بیٹھیے

بٹھایا مجھے تم نے زنداں میں خوب
میں بیٹھا بس اب دوستاں بیٹھیے

تم آنکھوں میں کیا بیٹھتے ہو مری
بہ پہلوئے دل مثل جاں بیٹھیے

نہیں بیٹھنے کی تمہارے وہ جا
ادھر آئیے اب یہاں بیٹھیے

نہ پہنچوں گے منزل کو تم مصحفیؔ
گیا دور اب کارواں بیٹھیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse