غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں
تا نا اس بات کا چرچا ہو مری جان کہیں

اب تلک غنچے کی گردن ہے جھکی خجلت سے
اس نے دیکھی تھی تری گوئے گریبان کہیں

راز دل اس سے کہا میں تو ولے یہ ڈر ہے
کہ مرے راز کو کہہ دے نہ وہ نادان کہیں

اے پریشانئ زلف صنم کافر کیش
کیجیو تو نہ مرے دل کو پریشان کہیں

دل کی بے چینی سے میں سخت بتنگ آیا ہوں
چین پڑتا ہی نہیں ہے اسے اک آن کہیں

دھانی جوڑے نے ترے کھیت رکھا ہے مجھ کو
سبز رنگ اتنے تو دیکھے نہیں ہیں دھان کہیں

منع کس واسطے کرتا ہے میں تیرے صدقے
عید کے دن تو مجھے ہونے دے قربان کہیں

درد دل جا کے میں کہہ لوں ابھی در کے نزدیک
ایک ساعت کو ہی اٹھ جاوے جو دربان کہیں

مصحفیؔ ایک غزل اور بھی میں لکھتا ہوں
یہ تو بیتیں کئی میں نے بہت آسان کہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse