کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
جان دیتے ہیں آن پر عاشق

کوئی ان گالیوں سے ٹلتے ہیں
ہم ہیں تیری زبان پر عاشق

خواری ان عاشقوں کی وے جو ہوئے
تجھ سے ناقدردان پر عاشق

تازہ آفت تو ایک یہ ہے کہ ہم
ہوئے اس نوجوان پر عاشق

جان دینے کو سود جانتے ہیں
ہم ہیں اپنے زیان پر عاشق

اس قدر گرتی ہے کہے تو یہ برق
ہے مرے آشیان پر عاشق

مصحفیؔ گر تو مرد کامل ہے
دل نہ رکھ اس جہان پر عاشق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse