جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
دیکھ اس کو مرے تھرائے پاؤں

خط کا لایا نہ ادھر سے وہ جواب
یوں ہی قاصد کے میں تھکوائے پاؤں

بد گمانی نہ ہو عاشق کی زیاد
اس نے شب غیر سے دبوائے پاؤں

ہاتھ سے یار کا دامن دے کر
ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے پاؤں

نجد کا دیکھ کے صحرائے وسیع
آتے ہی قیس نے پھیلائے پاؤں

خوش خرامی ہے صنم! تجھ پر ختم
کبک و طوطی نے یہ کب پائے پاؤں

تو تو سوتا رہا عاشق نے ترے
رات بھر آنکھوں سے سہلائے پاؤں

مجھ مسافر کے کسی نے ہرگز
گرم پانی سے نہ دھلوائے پاؤں

مصحفیؔ ہم کو طرب سے کیا کام
بیٹھے ہیں گور میں لٹکائے پاؤں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse