کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
کس وقت یہ دل ہو گیا بسمل نہیں معلوم

اس قافلے میں جاتے ہیں محمل تو ہزاروں
پر جس میں کہ لیلیٰ ہے وہ محمل نہیں معلوم

درپیش ہے جوں اشک سفر ہم کو تری کا
دن رات چلے جاتے ہیں منزل نہیں معلوم

حیران ہیں ہم اس کے معمائے دہن میں
کیوں کر کھلے یہ عقدۂ مشکل نہیں معلوم

اے مصحفیؔ جل بھن کے ہوا خاک میں سارا
دکھلاوے گی اب کیا تپش دل نہیں معلوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse