اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں
نالۂ نیم شبی تجھ میں اثر ہے کہ نہیں

جان پر اپنی میں کھیلا ہوں جدائی میں تری
بے خبر تجھ کو بھی کچھ اس کی خبر ہے کہ نہیں

ایک مدت ہوئی ہم وصف کمر کرتے ہیں
پر یہ معلوم نہیں اس کے کمر ہے کہ نہیں

رکھ نہ سوزن کو ذرا دیکھ تو لے اے جراح
قابل بخیہ مرا زخم جگر ہے کہ نہیں

کیا خوش آئی ہے دلا منزل ہستی تجھ کو
سچ بتا یاں سے ترا عزم سفر ہے کہ نہیں

تو جو بے پردہ ہو منہ غیر کو دکھلاتا ہے
پاس میرا بھی کچھ اے رشک قمر ہے کہ نہیں

دیکھ تو اے بت بے مہر تری فرقت میں
ہر بن موے مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں

اس کے در پر ہی جو رہتا ہوں میں دن رات پڑا
مجھ سے جھنجھلا کے کہے ہے ترے گھر ہے کہ نہیں

مصحفیؔ اس کی گلی میں جو تو جاتا ہے سدا
اپنی بدنامی کا کچھ تجھ کو بھی ڈر ہے کہ نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse