ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
غیر از خوں ناب کچھ نہ نکلا

بوسے کا کیا سوال لیکن
اس منہ سے جواب کچھ نہ نکلا

باہم ہوئی یوں تو دید وا دید
پر دل کا حجاب کچھ نہ نکلا

جز تیری ہوا کے اپنے سر میں
مانند حباب کچھ نہ نکلا

کرتا تھا بہت سا مجھ پہ دعویٰ
پر وقت حساب کچھ نہ نکلا

سینے میں جو دل کی کی تفحص
جز دود کباب کچھ نہ نکلا

ہم سمجھے تھے جس کو مصحفیؔ یار
وہ خانہ خراب کچھ نہ نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse