بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
ہے باغباں کی گرمئ بازار ہر طرف

کیا فصل گل پھر آئی جو کرتے ہیں زمزمہ
دام قفس میں مرغ گرفتار ہر طرف

کوٹھے پہ اس کے پھینکوں میں کس راہ سے کمند
کم بخت پاسباں تو ہیں بیدار ہر طرف

تودے جہاں تھے اس کے شہیدوں کی خاک کے
تیر اس نے مارے ناز سے دو چار ہر طرف

جب اس کی برق حسن سے پردہ ہوا ہے وا
ضائع ہوئے ہیں طالب دیدار ہر طرف

عاشق کو اس گلی سے نکالیں تھے جب بہ زور
پڑتی تھی چشم حسرت دیدار ہر طرف

دعوت ہے کس کی بزم فلک میں جو کب سے ہیں
آنکھیں لگائے رخنۂ دیوار ہر طرف

ثابت بچا نہ کافر و دیں دار تک کوئی
تیغ نگہ نے اس کی کیے وار ہر طرف

سودے میں جستجو کے تری اے متاع حسن
سر مارتے پھریں ہیں خریدار ہر طرف

پرواز کا جو شوق ہے بلبل کے مشت پر
کنج قفس میں اڑتے ہیں ناچار ہر طرف

حیراں ہوں میں کہ کس کا یہ کوچہ ہے جس کے بیچ
ٹکڑے ہوئے پڑے ہیں طرح دار ہر طرف

غوغا ہے شرق و غرب و جنوب و شمال میں
فتنے جگا گئی تری رفتار ہر طرف

گو میں ہوا مقیم تو کیا ڈر ہے مصحفیؔ
سیر و سفر میں ہیں مرے اشعار ہر طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse