فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
by غلام علی ہمدانی مصحفی

فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
اور دید کا جو شوق ہے تو دید سے نکل

زنداں ہجر میں ہمیں سونپا تھا عشق نے
آئے ہیں ہم نصیبوں کی تائید سے نکل

قالب میں میرے یارو بھلا کیا سماوی دم
جب جان کو کہے کوئی تاکید سے نکل

تشبیب میں بھی لطف ہے اک اے قصیدہ گو
اتنا شتاب بھی تو نہ تمہید سے نکل

مصرع کو پہنچے مصرعۂ ثانی برا ہے کیا
کر لے نکاح عالم تجرید سے نکل

کر تو عیوب نظم سے پرہیز اے فلاں
شاعر ہے تو تنافر و تعقید سے نکل

ہیں یاد کب اے مری وحشت کے رنگ ڈھنگ
مجنوں گیا ہے دشت کو تقلید سے نکل

وہ مست میں نہیں ہوں کہ مستوں کی کھا کے دھول
جاؤں شراب خانۂ توحید سے نکل

ہو مصحفیؔ تو علم الٰہی کا آشنا
قید عناصر اور موالید سے نکل


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.