او میاں بانکے ہے کہاں کی چال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
by غلام علی ہمدانی مصحفی

او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
تم جو چلتے ہو نت یہ بانکی چال

ناز رفتار یہ نہیں دیکھا
ہم نے دیکھی ہے اک جہاں کی چال

لاکھوں پامال ناز ہیں ان کے
کون سمجھے ہے ان بتاں کی چال

کبک کو دیکھ کر یہ کہنے لگا
یہ چلے ہے ہمارے ہاں کی چال

رکھ کے شطرنج غائبانۂ عشق
تم چلے اک تو امتحاں کی چال

تس پہ دشمن ہمارے جی کی ہوئی
کجیٔ پیل آسماں کی چال

مصحفیؔ بھر چلا وہ ریش و بروت
ہوئے جس پیر ناتواں کی چال

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse