آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
لازم ہے پاسباں سے اب ہم کو ساز کرنا

گر ہم مشیر ہوتے اللہ کے تو کہتے
یعنی وصال کی شب یا رب دراز کرنا

اس کا سلام مجھ سے اب کیا ہے گردش رو
طفلی میں میں سکھایا جس کو نماز کرنا

ازبسکہ خون دل کا کھاتا ہے جوش ہر دم
مشکل ہوا ہے ہم کو اخفائے راز کرنا

بایک نیاز اس سے کیونکر کوئی بر آوے
آتا ہو سو طرح سے جس کو کہ ناز کرنا

کرتے ہیں چوٹ آخر یہ آہوان بدمست
آنکھوں سے اس کی اے دل ٹک احتراز کرنا

اے آہ اس کے دل میں تاثیر ہو تو جانوں
ہے ورنہ کام کتنا پتھر گداز کرنا

ہووے گی صبح روشن اک دم میں وصل کی شب
بند قبا کو اپنے ظالم نہ باز کرنا

اے مصحفیؔ ہیں دو چیز اب یادگار دوراں
اس سے تو ناز کرنا مجھ سے نیاز کرنا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.