دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے
کیا یوں ہی کوئی حسرت آغوش میں مر جائے

قبر اس کی پہ لازم ہے خم مے کا چڑھانا
جو مست کہ عشق بت مے نوش میں مر جائے

ہے طرفہ اذیت کوئی کس طرح خدایا
یاد صنم وعدہ فراموش میں مر جائے

سرگوشی کی رخصت نہ کبھی غیر کو دینا
گر وہ ہوس زلف و بنا گوش میں مر جائے

گر غنچۂ محجوب تری وضع کو دیکھے
انداز حیائے لب خاموش میں مر جائے

اللہ رے برقعہ ترا اور اس کے یہ روزن
دیکھے جو چھپا یوں تجھے روپوش میں مر جائے

کیا فائدہ پھولوں کی چھڑی اس پہ لگانا
اے گل جو تری ایک ہی پاپوش میں مر جائے

یارب نہ وہ دن اس کے تو عاشق کو دکھانا
معشوق کے آتے ہی جو آغوش میں مر جائے

آتا ہے مجھے مصحفیؔ دل اپنے پہ رونا
افسوس ہے یوں غش سے وہ آ ہوش میں مر جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse