جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
کیا جانے یہ کس کا مجھ کو غم ہے

جاوے تو کنشت دل میں ہو کر
تو کعبے کی راہ دو قدم ہے

دیکھے ہے وہ دھکدھکی میں جب سے
تب سے مرا دھکدھکے میں دم ہے

تصویر تو اس کی زلف کی دیکھ
نقاش یہ چین کا قلم ہے

گر دیدۂ غور سے تو دیکھے
ہستی جسے کہتے ہیں عدم ہے

اتنے جو ہوئے ہیں ہم بد احوال
یہ حضرت عشق کا کرم ہے

ہر چند اس کی ہے ہر ادا شوخ
منظور اپنا جو اک صنم ہے

پر دانتوں تلے زباں دبانا
بیداد ہے قہر ہے ستم ہے

سمجھو نہ فقیر مصحفیؔ کو
یہ وقت کا اپنے محتشم ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse