کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
ہے بادیہ ریگ اور ہمیں منزل نہیں معلوم

میں حشر کے دن دعویٰ خوں کس سے کروں گا
وہ کشتہ ہوں جس کشتہ کا قاتل نہیں معلوم

نکلیں ہیں مرے دل کے تڑپنے میں ادائیں
ہے کس کی نگاہوں کا یہ بسمل نہیں معلوم

تھا روئے دل خستہ تو شب میری طرف کو
کب ہو گیا مژگاں کے مقابل نہیں معلوم

وہ بحر ہے دریائے سرشک اپنا کہ جس کا
پہنا ہی نظر آوے ہے ساحل نہیں معلوم

مر جاؤں کہ جیتا رہوں میں ہجر میں تیرے
کس چیز کا خواہاں ہے مرا دل نہیں معلوم

آنکھوں سے گزارا ہے جو یوں لخت جگر کا
آتے ہیں چلے کس کے یہ گھائل نہیں معلوم

کیا جانیے کیا اس میں تری آنکھوں نے دیکھا
کیوں ہو گئیں آئینے کی مائل نہیں معلوم

اے مصحفیؔ افسوس کہ اس ہستی پہ ہم کو
تحصیل وفاداری کا حاصل نہیں معلوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse