جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
راہ کے جانے والوں نے بھی منہ اس کا پھر پھر کے دیکھا

قیس ملے تو اس سے پوچھوں کیا ترے جی میں آئی دوانے
شہر کو تو نے کس لیے چھوڑا کیوں کے خوش آیا تجھ کو صحرا

صبح سے لے کر شام تلک یاں یہ وہ گلی ہے جس میں پھریں ہیں
چاک گریباں موے پریشاں ہم سے ہزاروں عاشق رسوا

اس نے مزا کیا پایا ہوگا دو چلو مے پینے کا یاں
جس میکش کے ہاتھ نہ آیا غبغب ساغر ساعد مینا

سوختگی نے غم کی اثر جو دل میں کیا ہے ہونے لگا ہے
تھوڑا تھوڑا رنگ دھوئیں کے سبزہ ہماری خاک سے پیدا

اک ٹھوکر میں مردے ہزاروں اٹھ بیٹھیں ہیں گور سے ووہیں
لیتا ہے وہ وقت خرامش پانو سے اپنے کار مسیحا

جاتے ہیں نا کسی کے گھر ہم اور نہ کوئی کچھ دیتا ہے ہم کو
قطع کیے ہیں ہم نے دونوں پائے طلب اور دست تمنا

آنکھ لڑانا سامنے آنا منہ دکھلانا اور چھپ جانا
یہ بھی ادا ہے کوئی ظالم مان خدا کو مت دے ایذا

مصحفیؔ اس دلچسپ زمیں میں طبع کرے گر تیری رسائی
خامہ ترا کچھ کند نہیں ہے ایک غزل تو اور بھی لکھ جا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse