سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے
دھوکا سا ایک ہم کو دکھا کر چلے گئے

کی ہم سے باغباں نے یہ کاوش کہ آخرش
ہم آشیاں کو آگ لگا کر چلے گئے

ہونے دیا نہ مجھ سے تمہیں شرم نے دو چار
جب مل گئے تو سر کو جھکا کر چلے گئے

آتا ہوا جو دور سے دیکھا مجھے تو وے
رستے میں مجھ سے منہ کو چھپا کر چلے گئے

اب میں ہوں اور وہ زلف ہے یاران بے وفا
دام بلا میں مجھ کو پھنسا کر چلے گئے

ٹھوکر سے اپنے پانو کے گلشن میں خوش قداں
صد فتنہ ہائے خفتہ جگا کر چلے گئے

ہے غیر سے بھی ربط تمہیں میں جو یہ کہا
سوگند میرے سر کی وہ کھا کر چلے گئے

آئے کبھی جو باغ میں دیوانگان دشت
آنکھوں سے جوئے خون بہا کر چلے گئے

ہرگز رہا نہ ان کا نشاں وہ جو مصحفیؔ
قصر و محل زمیں پہ بنا کر چلے گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse