پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
ابھی گرد باد ہو اڑ گیا وہ عجب طرح کا غبار تھا

میں نگاہ پاک سے دیکھے تھا ترے حسن پاک کو اس پہ بھی
مرے جی میں خواہش وصل تھی مرے دل میں بوس و کنار تھا

دل خستہ پہلو میں رہ گیا مرے سرد ہو کے تو کیا عجب
کہ کسی کی صافیٔ شست کا یہ خدنگ خوردہ شکار تھا

مری بے کسی پہ تری نظر نہ پڑی جب اے بت عشوہ گر
وہ جو تیرا عہد شباب تھا سو وہ عین جوش بہار تھا

میں مزار کو بھی مٹا دیا میں غبار کو بھی اڑا دیا
کہ تری صفائے مزاج پر مری خاک سے بھی غبار تھا

اس ادا سے تیر لگاوے تھا تو بہ روئے تودۂ مشت گل
کہ فلک بہ تیغ و کمان بھی ترا محو کند و کدار تھا

یہ جنوں کی عقدہ کشائیاں کوئی بھولتا ہوں میں مصحفیؔ
کہ بہ روئے ہر سر آبلہ وہی ناخن سر خار تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse