تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
مجھ پر اک رات کروگے جو کرم کیا ہوگا

ایک عالم نے کیا ہے سفر ملک عدم
ہم بھی جاویں گے اگر سوئے عدم کیا ہوگا

دم رخصت ہے مرا آج مری بالیں پر
تم اگر وقفہ کروگے کوئی دم کیا ہوگا

دیکھ اس چاک گریباں کو تو یہ کہتی ہے صبح
جس کا سینہ ہے یہ کچھ اس کا شکم کیا ہوگا

چین ہو جائے گا دل کو مرے از راہ کرم
میری آنکھوں پہ رکھوگے جو قدم کیا ہوگا

صحبت غیر کا انکار تو کرتے ہو ولے
کھاؤگے تم جو مرے سر کی قسم کیا ہوگا

شانہ اک عمر سے کرتا ہے دو وقتی خدمت
تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂ نم کیا ہوگا

مصحفیؔ وصل میں اس کے جو موا جاتا ہو
اس پہ ایام جدائی میں ستم کیا ہوگا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.