حال دل بے قرار ہے اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حال دل بے قرار ہے اور
by غلام علی ہمدانی مصحفی

حال دل بے قرار ہے اور
شاید کہ خیال یار ہے اور

اے دیدہ نہ رو کہ تجھ پر اک شب
رنج شب انتظار ہے اور

جاگا ہے کہیں مگر تو دیشب
آنکھوں میں تری خمار ہے اور

فرہاد نے دیکھتے ہی گلگوں
جانا تھا کہ یہ سوار ہے اور

کوچے میں ترے مری نگہ کا
ہر گوشہ امیدوار ہے اور

ہے آخر عمر اس چمن میں
دو چار ہی دن بہار ہے اور

ناوک کا ترے شکار گہ میں
ہر گوشے نیا شکار ہے اور

وہ ہم سے کرے ہے کل کا وعدہ
اوروں سے وہاں قرار ہے اور

کیا لالے سے نسبت اس کو سچ ہے
داغ دل داغ دار ہے اور

اوروں سا نہ جان مجھ کو پیارے
یہ عاشق جاں نثار ہے اور

اے مصحفیؔ اس میں چپ ہی رہ تو
سنتا ہے یہ روزگار ہے اور


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.