جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
تو ہی بتا مجھے میں کدھر جاؤں کیا کروں

ہے اضطراب دل سے نپٹ عرصہ مجھ پہ تنگ
آج اس تلک بہ دیدۂ تر جاؤں کیا کروں

حیران ہوں کہ کیونکے یہ قصہ چکے مرا
سر رکھ کے تیغ ہی پہ گزر جاؤں کیا کروں

بتلا دے تو ہی واشد دل کا مجھے علاج
گلشن میں اے نسیم سحر جاؤں کیا کروں

بیٹھا رہوں کہاں تلک اس در پہ مصحفیؔ
اب آئی شام ہونے کو گھر جاؤں کیا کروں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse