شعر دولت ہے کہاں کی دولت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شعر دولت ہے کہاں کی دولت
by غلام علی ہمدانی مصحفی

شعر دولت ہے کہاں کی دولت
میں غنی ہوں تو زباں کی دولت

سیکڑوں ہو گئے صاحب دیواں
میری تقریری و بیاں کی دولت

سیر مہتاب کر آئے ہم بھی
بارے اس آب رواں کی دولت

زخم کیا کیا مرے تن پر آئے
تیری شمشیر و سناں کی دولت

ہوئی محبوس قفس بلبل نے
رنج دیکھا یہ خزاں کی دولت

کوئی نواب کے گھر کا ہے غلام
کوئی پلتائے ہے خاں کی دولت

مصحفیؔ پر ہے ترا کر و فر
صاحب عالمیاں کی دولت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse