تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
اب وہی ہے لالۂ زرد خزان ریختہ

آگے کچھوے کی کماں کے قدر کیا اس کی رہی
تھی فرید آبادی اپنی گو کمان ریختہ

خشک کرتے ہیں جو فکر خشک سے اپنا دماغ
جانتے ہیں اس کو مغز ستخوان ریختہ

پیچ دے دے لفظ و معنی کو بناتے ہیں کلفت
اور وہ پھر اس پہ رکھتے ہیں گمان ریختہ

فہم میں اتنا نہیں آتا بحکم رائے پست
اس بلندی سے گھٹی جاتی ہے شان ریختہ

خوان یغما بن کے پہنچا ہر کس و ناکس کے ہاتھ
نطع سلطاں جو تھا مخصوص خوان ریختہ

ہے رگ ابر بہاری ہاتھ میں میرے قلم
رشک جنت جس سے ہے یہ گلستان ریختہ

فارسی اب ہو گئی ہے ننگ اس کے واسطے
فارسی کا ننگ تھا جیسے قرآن ریختہ

چاند تارے کا دوپٹا میں دیا اس کو بنا
ورنہ اس زینت سے کب تھا آسمان ریختہ

رفتہ رفتہ ہائے اس کا اور عالم ہو گیا
نظم سے اپنی گرا نظم بیان ریختہ

جب سے معنی بندی کا چرچا ہوا اے مصحفیؔ
خلطے میں جاتا رہا حسن زبان ریختہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse