گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ
ڈوبتی ہے بھنور میں جا کر ناؤ

نہ گلی اپنی واں کبھی کھچڑی
نت پکاتے رہے خیالی پلاؤ

دل ہے اے نالہ جوں کباب ورق
آنچ کم دے یہ کھا نہ جائے تاؤ

بوسہ لیتے میں کاٹ کھاتے ہو
کیا تمہارا برا پڑا ہے سبھاؤ

جی پہ یاں بن رہی ہے یہ تو کہو
آج کیدھر چلے ہو کر کے بناؤ

کیوں کے رکھوں قدم گلی میں تری
واں تو پڑتا نہیں ہے اپنا ہواؤ

آتش معدہ کو نہیں سیری
جوں جہنم کرے ہے لاؤ ہی لاؤ

دل جو میں گم کیا تو تم کو کیا
یارو اس بات کا کرو نہ چواؤ

تھی شب وصل پر خیال کے ساتھ
ہم نے دل سے نکالے کیا کیا چاؤ

دہ دل ہے تعلقے میں ترے
خواہ اوجڑ کر اس کو خواہ بساؤ

مرہم لطف منہ نہ موڑیو تو
ابھی آلے ہیں سب جگر کے گھاؤ

یہ زمیں بھی ہے طرفہ معنی خیز
مصحفیؔ اک غزل تو اور سناؤ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse