عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
آپ حلال میں ہوتا ہوں ان لوگوں کو قربانی ہے

نطق زباں گر ہوتا مجھ کو پوچھتا میں تقصیر مری
ہاں یہ مگر دو آنکھیں ہیں سو ان سے اشک فشانی ہے

گھاس چری ہے جنگل کی میں جون میں دنبے بکرے کی
ان کا کچھ ڈھالا کہ بگاڑا جس پر خنجر رانی ہے

تین جگہ سے میرے گلے کو مثل شتر یہ کاٹتے ہیں
دین محمدی ہے جو خلیلی اس کی یہ طغیانی ہے

جنس نے جنس کو قتل کیا کب دیکھیو بد ذاتی تو ذرا
یعنی جو ہو مرد مسلماں اس کی یہ ہی نشانی ہے

کافر دل جلاد نہیں ہم زخم کو ایک سمجھتے ہیں
ہم کو جو اس کام کا سمجھے اس کی یہ نادانی ہے

راہ رضا پر اپنا گلا کٹوائے جو نیچے خنجر کے
مصحفیؔ اس کو ہم یہ کہیں گے وہ بھی حسین ثانی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.