زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی
by غلام علی ہمدانی مصحفی

زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی
آنکھوں کا مٹکنا ہوش ربا، ہر ایک پلک پھر ویسی ہی

وہ شوخ جو گزرے مثل صبا، تو بھڑکے نہ کیوں کر آتش دل
اک طور کی اس کی جنبش پا، دامن کی جھٹک پھر ویسی ہی

کوئی کیوں نہ گریباں چاک کرے اب دیکھ کے چھب کو اس بت کی
پنڈے کا جھلکنا ہائے خدا، چولی کی مسک پھر ویسی ہی

دل کیوں نہ کرے سینے میں تپش، جب یار کی ہو یہ راہ و روش
رفتار میں اک البیلی ادا، اور قد کی لچک پھر ویسی ہی

ہم کیوں نہ کف افسوس ملیں، جب وے ہی ترا پابوس کریں
دامن سے زیادہ بند قبا، زلفوں کی لٹک پھر ویسی ہی

وہ ماہ چھپایا تو نے کہاں ہے جس سے جگر پر داغ مرے
صورت تو دکھا دے مجھ کو ذرا جلدی سے فلک پھر ویسی ہی

اے مصحفیؔ میرے حال پہ اب کیوں کر نہ کوئی افسوس کرے
بے ساختہ دل بیتاب ہوا آنسو کی ڈھلک پھر ویسی ہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse