دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
لے گئے سپیرے واں سے بہت بھر کے باٹ سانپ

ازبسکہ اس کے زہر پہ غالب ہے زہر عشق
مر جاوے ہے وہیں ترے عاشق کو کاٹ سانپ

دریا میں سر کے بال کوئی دھو گیا مگر
لہروں کے ہو رہے ہیں جو یوں بارہ باٹ سانپ

نامرد سے بھلا جٹئی خاک پھر ہوئی
سمجھا جب اپنی بھینس کی رسی کو جاٹ سانپ

تحریک زلف سے تری باد سموم نے
کہتے ہیں دشت و در میں دیے باٹ باٹ سانپ

تھے جس زمیں پہ صندل پا کے ترے نشاں
جیتے ہیں اب وہیں کی ذرا خاک چاٹ سانپ

ساحل پہ اس کی جعد مسلسل کے عکس سے
دریا میں دھوبیوں کو نظر آئے پاٹ سانپ

بنگلے میں جا کے خاک رہے کوئی مصحفیؔ
کر دیں ہیں آدمی کا یہاں جی اچاٹ سانپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse