نظر کیا آئے ذات حق کسی کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نظر کیا آئے ذات حق کسی کو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نظر کیا آئے ذات حق کسی کو
خیال اس کا نہیں مطلق کسی کو

نہ تھا عاشق کے خوں میں رنگ گل زار
کوئی تو دے گیا رونق کسی کو

مقید میں مقید ہے وہ مطلق
نہ سوجھا اتنا بھی مطلق کسی کو

نہ کر اتنی بھی ناصح ہرزہ گوئی
خوش آتی کب ہے یہ بق بق کسی کو

فریب مدعی کھاتے ہیں کب ہم
مگر سمجھا ہے وہ احمق کسی کو

جگر ہے چاک چاک آستیں سے
دکھائی تو نے کیا مرفق کسی کو

ریاض وصل سے وقت سقیمی
نہ ہاتھ آئی کبھی سرمق کسی کو

تصور میں ترے اے شعلۂ حسن
نہیں آرام چوں زیبق کسی کو

بھروسا کیا ہے دل کا بحر غم میں
ڈبو دیوے نہ یہ زورق کسی کو

نکلنے آپ سے دیتا نہیں آہ
طلسم گنبد ارزق کسی کو

دکھا دے چاندنی میں اپنا مکھڑا
صنم مل کر ذرا ابرق کسی کو

وحیدؔ دہر ہے اے مصحفیؔ تو
نہ اپنے ساتھ کر ملحق کسی کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse