دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
by غلام علی ہمدانی مصحفی

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
پچھتائے ہم اس شام غریباں سے نکل کر

یہ اس سے زیاں کار تو وہ اس سے بد آئیں
جاؤں میں کہاں گبر و مسلماں سے نکل کر

استاد کوئی زور ملا قیس کو شاید
لی راہ جو جنگل کی دبستاں سے نکل کر

معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو
یوں سینہ ترا چاک گریباں سے نکل کر

گزرا رگ گردن سے کہ جوں شمع سر اپنا
تلوار ہی کھاتا ہے گریباں سے نکل کر

نا زوری میں آیا نہ کبھو تا سر مژگاں
یک قطرۂ خوں بھی بن مژگاں سے نکل کر

تیروں میں کماں دار مرا گھیر لے جس کو
وہ جانے نہ پاوے کبھی میداں سے نکل کر

ہم آپ فنا ہو گئے اے ہستئ موہوم
جوں موج تبسم لب جاناں سے نکل کر

صورت کے تری سامنے رہ جائے ہے کیسے
ہر بت کی نگہ دیدۂ حیراں سے نکل کر

اس دست حنائی میں رہا آئینہ اکثر
دریا نہ گیا پنجۂ مرجاں سے نکل کر

اب پڑھ وہ غزل مصحفیؔ تو شستہ و رفتہ
سننے جسے خلق آئے صفاہاں سے نکل کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse