رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
جو میرے ہاتھ سے پیتے نہیں ہیں پانی آپ

گھڑی گھڑی نہ کریں ہم پہ مہربانی آپ
کہ حسن رکھتے ہیں اور عالم جوانی آپ

میں بوسہ لے لے کے رخ کا اٹھا دیا پردہ
اسی غرور پہ کرتے تھے لن ترانی آپ

میں اپنا حال جو کہنے لگا تو یوں بولا
"سنے ہے کون؟ کہا کیجیے کہانی آپ"

میں بے گناہ سزا وار گالیوں کا نہیں
نہ میرے ساتھ کریں اتنی بد زبانی آپ

مصوروں نے قلم رکھ دیے ہیں ہاتھوں سے
بناویں آئنے میں اپنا نقش ثانی آپ

وفا کی اس سے طلب کر نہ ہرگز اے ناداں
کہ بے وفا ہے طلسم جہان فانی آپ

شراب وصل کا کس کی پیا ہے یہ ساغر
خمار شب سے جو رکھتے ہیں سرگرانی آپ

یہ بے وفا بھی میاں مصحفیؔ کسی کے ہوئے
بتوں پہ کرتے ہو کیوں اتنی جانفشانی آپ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.