کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
ہم لوگ ہیں سودائی اوقات ہماری کیا

بجلی سے لپٹ کر ہم بھسمنت ہوئے آخر
اس کو ترے دامن کی سمجھے تھے کناری کیا

جوں شمع سر شب سے میں رونے کو بیٹھا ہوں
تا آخر شب دیکھوں دکھلائے یہ زاری کیا

گھبرائی جو پھرتی ہے اس طور صبا ہر سو
آتی ہے گلستاں کو اس گل کی سواری کیا

رونا مری آنکھوں سے جب تک کہ نہ سیکھے گا
جا بیٹھ تو رووے گا اے ابر بہاری کیا

سوتے سے تو اٹھنے دو ٹک اس کو سحر ہوتے
دیکھو گے کہ مچلے گی وہ چشم خماری کیا

نرگس کی خجل آنکھیں اتنی تو نہ تھیں گاہے
اس چشم مفتن سے بازی کوئی ہاری کیا

اوقات مجرد کی کس طرح بسر ہووے
جنگل ہے یہ بکتی ہے یاں نان نہاری کیا

اے مصحفیؔ میں اس کو جی جان سے گو چاہا
آخر کو ہوا حاصل جز ذلت و خواری کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse