کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
تو بحث نہ مے خواروں سے چل دور ہو اے شیخ

مسجد میں ذرا وقت سحر دیکھ تو جا کر
شاید کوئی اس چشم کا مخمور ہو اے شیخ

صد دانۂ تسبیح رکھے ہاتھ میں اپنے
چونکے تو جو یک دانۂ انگور ہو اے شیخ

تو مجھ کو کہے ایک میں سو تجھ کو سناؤں
اے کاش کہ اتنا مجھے مقدور ہو اے شیخ

آیا ہے وہ بدمست لیے ہاتھ میں شمشیر
مجلس سے شتابی کہیں کافور ہو اے شیخ

کرتا ہے ہمیں منع تو پیمانہ کشی سے
پیمانہ تری عمر کا معمور ہو اے شیخ

البتہ کرے منع ہمیں عشق بتاں سے
تجھ سا جو کوئی عقل سے معذور ہو اے شیخ

پھر دم ہے وہ شملہ جو ہوا حد سے زیادہ
رکھ شملہ تو شملے کا جو دستور ہو اے شیخ

ہر حرف میں سختی ہے ترے سنگ جفا سے
ڈرتا ہوں نہ پھر شیشۂ دل چور ہو اے شیخ

کیا حور کی باتوں سے لبھاوے ہے تو مجھ کو
حاشا کہ مجھے آرزوئے حور ہو اے شیخ

شیخی میں تو سنتا ہی نہیں بات کسی کی
اس داڑھی پر اتنا بھی نہ مغرور ہو اے شیخ

کیوں مصحفیؔ کو اتنی تو کرتا ہے نصیحت
سر چڑھ نہ بہت اس کے جو مجبور ہو اے شیخ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse