تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ
یاد آوے مجھے جس دم وہ نگمود کا گھاٹ

زندگانی کا مزہ زیر فلک اب نہ رہا
یارب ایسا ہو کہ مل جائے کہیں پاٹ سے پاٹ

فن کشتی میں قیامت ہے وہ بت گاذر کا
دھوم دیتا ہے مچا آوے ہے جب دھوبی پاٹ

جاتے ہی وادئ وحشت میں قدم مارا میں
چمن دہر سے دل اپنا ہوا جب کہ اچاٹ

خاک دہلی میں کیا جب سے نصاریٰ نے عمل
شور گوجر ہی رہا اور نہ ہنگامۂ جاٹ

ترک غمزے کا مگر بر سر سفاکی ہے
اس کے کوچے سے چلی آتی ہے جب کھاٹ پہ کھاٹ

قتل عاشق کا جو ہوتا ہے ارادہ اس کو
پہلے دیکھے ہے خر و گاؤ پہ تلوار کا کاٹ

کوئی سیکھے بھی قناعت کو تو سگ سے سیکھے
پڑ رہے ہے وہ بہ یک گوشہ دیا رات کو چاٹ

روز ہنگامہ ہے اس گنبد نیلی کے تئیں
مصحفیؔ شک نہیں بگڑا ہے مگر نیل کا ماٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse