نہیں کرتی اثر فریاد میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں کرتی اثر فریاد میری
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نہیں کرتی اثر فریاد میری
کوئی کس طرح دیوے داد میری

فغان جاں گسل رکھتا ہوں لیکن
نہیں سنتا مرا صیاد میری

تو اے پیغام بر جھوٹی ہی کچھ کہہ
کہ خوش ہو خاطر ناشاد میری

میں تجھ کو یاد کرتا ہوں الٰہی
ترے بھی دل میں ہوگی یاد میری

نہیں ہوتا مقید میں کسی کا
طبیعت ہے بہت آزاد میری

ادھر اے مصحفیؔ کیا دیکھتا ہے
غزل سن آ مرے استاد میری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse