رخ زلف میں بے نقاب دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
میں تیرہ شب آفتاب دیکھا

محروم ہے نامہ دار دنیا
پانی سے تہی حباب دیکھا

سرخی سے ترے لبوں کی ہم نے
آتش کو میان آب دیکھا

قاصد کا سر آیا اس گلی سے
نامے کا مرے جواب دیکھا

جانا یہ ہم نے وفات کے بعد
دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا

آفت کا نشانہ ہو چکا تھا
میں دل کی طرف شتاب دیکھا

اک وضع نہیں مزاج معشوق
گہہ لطف و گہے عتاب دیکھا

آنکھوں سے بہاریں گزریں کیا کیا
کس کس کا نہ میں شباب دیکھا

کل مے کدے میں بغیر ساقی
اوندھا قدح شراب دیکھا

کیں اس نے جفائیں بے حسابی
اک دن نہ کبھو حساب دیکھا

سینے سے نکل پڑا نہ آخر
دل کا مرے اضطراب دیکھا

کیا ہوگی فلاح بعد مردن
جیتے تو سدا عذاب دیکھا

آبادی ہے اس کی مصحفیؔ کم
عالم کے تئیں خراب دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse