سخن میں کامرانی کر رہا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
ضعیفی میں جوانی کر رہا ہوں

غرور نقش اول پیش کیا جائے
میں کار نقش ثانی کر رہا ہوں

نہ سمجھے گا کوئی مجھ کو پیمبر
عبث دعوائے ثانی کر رہا ہوں

اجل تو ہی سبک کر مجھ کو آ کر
دلوں پر میں گرانی کر رہا ہوں

دل معشوق پتھر ہے تو ہووے
میں اس کو پانی پانی کر رہا ہوں

تصور ہے کہاں مجھ پاس تیرا
میں خود باتیں زبانی کر رہا ہوں

نہیں پاس اس کے بیٹھا بے سبب میں
گلوں کی پاسبانی کر رہا ہوں

کبھی تو بھی تو میرے خواب میں آ
میں تیری یاد جانی کر رہا ہوں

فرشتے کا گزر اس تک نہیں ہے
میں آپھی بد گمانی کر رہا ہوں

نہیں اے مصحفیؔ فہمیدہ کوئی
عبث جادو بیانی کر رہا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse