آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
الٹی گنگا بہاتے ہیں آنسو

آتش دل تو خاک بجھتی ہے
اور جی کو جلاتے ہیں آنسو

خون دل کم ہوا مگر جو مرے
آج تھم تھم کے آتے ہیں آنسو

جب تلک دیدہ گریہ ساماں ہو
دل میں کیا جوش کھاتے ہیں آنسو

گوکھرو پر تمہاری انگیا کے
کس کے یہ لہر کھاتے ہیں آنسو

تیری پازیب کے جو ہیں موتی
ان سے آنکھیں لڑاتے ہیں آنسو

شمع کی طرح اک لگن میں مرے
مصحفیؔ کب سماتے ہیں آنسو

فکر کر ان کی ورنہ مجلس میں
ابھی طوفاں لاتے ہیں آنسو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse