از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
بے اختیار تجھ پر آتا ہے پیار مجھ کو

صیاد کا برا ہو جس کے تغافلوں نے
کنج قفس میں رکھا فصل بہار مجھ کو

جاؤں کدھر کو یارو مانند صید خرگہ
مژگاں نے کر رکھا ہے اس کی شکار مجھ کو

اس رفتگی پہ مجھ سے کرتا ہے تو تغافل
ڈانٹے ہے تس پہ الٹا پھر بار بار مجھ کو

میرا قصور کیا ہے صانع کو چاہئے تھا
مقدار حسن دیتا صبر و قرار مجھ کو

فتنہ ہے یا پری ہے جادو ہے یا بلا ہے
آنکھوں سے یہ کیا ہے کس کی دو چار مجھ کو

اے مصحفیؔ تصور اس کا جو سامنے ہے
آتا نہیں شب غم یک دم قرار مجھ کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.