چھریاں چلیں شب دل و جگر پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
by غلام علی ہمدانی مصحفی

چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
لعنت ہے اس آہ بے اثر پر

بالوں نے ترے بلا دکھا دی
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر

نامے کو مرے چھپا رکھے گا
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر

پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو میں امید یک نظر پر

کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب
زردی سی ہے کیوں رخ قمر پر

پھر غیرت عشق نے بٹھائے
درباں شدید اس کے در پر

رہتی ہیں بہ وقت گریہ اکثر
دو انگلیاں اپنی چشم تر پر

ہے عشق سخن کا مصحفیؔ کو
مائل نہیں اتنا سیم و زر پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse