ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو
جو دم ہے غنیمت ہے کہ پھر رات ہے اور تو

اک ہم سے ہی ملنے میں تأمل ہے وگرنہ
غیروں سے وہی تیری ملاقات ہے اور تو

یاں روز سیاہ و شب تاریک ہے اور ہم
واں آئینۂ باغ طلسمات ہے اور تو

مر جانے کی جا ہے کہ صنم دو دو پہر تک
ہر اک سے سر بام اشارات ہے اور تو

سو باتیں ہوئیں تو نہ ملا اپنے سے اے دل
کیا بات ہے تیری کہ وہی بات ہے اور تو

نے حور نہ انساں نہ پری اور نہ فرشتہ
جس حسن و صباحت میں تری گات ہے اور تو

زندان فراق و لب خاموش ہے اور ہم
سیر چمن و حرف و حکایات ہے اور تو

ہووے گا نہ یہ ہستئ فانی کا بکھیڑا
اک روز یہ ہوگا کہ تری ذات ہے اور تو

نومید نہ ہو ہجر میں اے مصحفیؔ اس سے
دو دن کو وہی لطف و عنایات ہے اور تو

کڑھ مت کہ فراغت کی بھی آ جائے ہے ساعت
پھر مان دوانے وہی اوقات ہے اور تو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse