بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
یہ اور طرح کا چاہنا ہے

ہے وعدۂ وصل آج مجھ کو
اسباب طرب بساہنا ہے

ہیں ناوک غمزہ گرچہ کاری
میرا ہی جگر سراہنا ہے

دنیا ہے سرائے فانی اس میں
جو آیا ہے یاں سو پاہنا ہے

چتون میں کہے ہے یوں وہ مغرور
تجھ سے مجھے کیا نباہنا ہے

اے مصحفیؔ دل رہا ہے پیچھے
اس کو بھی ذرا نباہنا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.