بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں
اپنی قبر آپ ہی تعمیر کیے جاتا ہوں

چین مطلق نہیں پڑتا شب ہجراں میں مجھے
صبح تک نالۂ شب گیر کیے جاتا ہوں

عفو پر عفو کی ریزش ہے ادھر سے ہر دم
اور میں تقصیر پہ تقصیر کیے جاتا ہوں

اس کے کوچے میں جو دیکھے گا کرے گا مجھے یاد
اپنی صورت کی میں تصویر کیے جاتا ہوں

اٹھ کے تا کوچۂ لیلیٰ سے نہ جاوے یہ کہیں
پانو میں قیس کے زنجیر کیے جاتا ہوں

کوئی لے جائے اسے یا کہ نہ لے جائے پہ میں
نامۂ شوق کی تحریر کیے جاتا ہوں

اس کا کیا جرم مرے ہوش گئے ہیں کیسے
جو علم غیر پہ شمشیر کیے جاتا ہوں

پیش جاتی نہیں یوں بھی مری اس سے ہر چند
شر و مکر و فن و تزویر کیے جاتا ہوں

نقش حب چال سے نکل ہے مری اس خاطر
میں پری زادوں کی تسخیر کیے جاتا ہوں

مصحفیؔ یار تو سنتا نہیں اور وحشی سا
حال کی اپنے میں تقریر کیے جاتا ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.