ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
بد خواب ہو گئے ہیں جو دو چار شب سے ہم

کب کامیاب بوسہ ہوئے اس کے لب سے ہم
شرمندہ ہی رہے دل مطلب مطلب سے ہم

بوسہ نہ لے سکے کف پا کا ادب سے ہم
کاٹیں ہیں اس لیے کف افسوس شب سے ہم

سوداگر صفائے دل بے غبار ہیں
اجناس شیشہ لائے ہیں شہر حلب سے ہم

یہ روز ڈھونڈھ لائے ہے اک خوبرو نیا
شاکی ہیں اپنے ہی دل آفت طلب سے ہم

کشتی ہماری بحر کی ہے مانجدھار میں
نکلے ہیں کب کشاکش لطف و غضب سے ہم

طرز خرام ناز کی بے اعتدالیاں
دیکھیں ہیں اور کچھ نہیں کہتے ادب سے ہم

برقعے میں ہو کہ پردۂ چادر میں خوبرو
پہچانتے ہیں وضع سے شوخی سے چھب سے ہم

شغل شراب و شیشہ و ساقیٔ نغمہ سنج
تائب ہوئے ہیں عالم پیری میں سب سے ہم

بے لطف زندگی کے ہیں دن آ بھی اے اجل
تیرے ہی انتظار میں بیٹھے ہیں کب سے ہم

فن اتنا کم کیا ہے کہ ان روزوں مصحفیؔ
دل میں اک انس رکھتے ہیں شعر عرب سے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse